🌱🥀🌱 BIDDAT SE MUTALIQ 🌱🥀🌱

■ بدعت، حقائق کے اُجالے میں

○سوال: بدعت کا لغوی معنی کیا ہے؟
●جواب: ’بدعت‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی ہوتا ہے ’کسی سابقہ نمونہ کے بغیر کوئی نئی چیز ایجاد کرنا۔ چنانچہ عربی لغت کی مشہور کتاب ’المنجد‘ میں بدعت کا معنی یوں بیان کیا گیا ہے’اخترعه وصنعه لا علی مثال‘ یعنی کسی سابقہ مثال کے بغیر کوئی نئی چیز بنانا اور ایجاد کرنا

○سوال: شریعت کی زبان میں بدعت کسے کہتے ہیں ؟
●جواب: شریعت میں بدعت ہر اس کام کو کہتے ہیں جو حضور ﷺ کے زمانہ مبارک میں نہ ہوا، چنانچہ امام یحییٰ بن شرف نووی بدعت کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’البدعة ھی احداث ما لم یکن فی عھد رسول اللہ ﷺ‘ بدعت ایسے نئے کام کا ایجاد کرنا ہے جو عہد رسالت مآب ﷺ میں نہ ہو-
(نووی ،تہذیب الاسماء واللغت۔۳:۲۲۔)

کچھ لوگ بدعت کی تعریف اس طرح سے کرتے ہیں کہ: وہ کام جو حضور ﷺاور خلفائے راشدین کے زمانے میں نہ ہوا وہ بدعت ہے۔ حالانکہ یہ تعریف خود ساختہ ہے جسے کسی عالم نے نہیں بیان کیا۔ اور صحیح حدیث کی روشنی میں بالکل غلط ہے۔ کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں تراویح کے نماز کی باضابطہ جماعت قائم کرنے کے بعد ارشاد فر مایا کہ: یہ کتنی اچھی بدعت ہے۔ ("نعم البدعة هذه")
اب آپ خود ہی غور کریں کہ جو کام خلفائے راشدین کے زمانے کے بعد ہو وہ بدعت ہے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو کیسے بدعت کہا جو خود ان کے زمانے میں ہوا؟ کیا نعوذباللہ وہ بدعت کی تعریف نہیں جانتے تھے؟ یقینا ایسا نہیں تو معلوم ہوگیا کہ یہ تعریف بالکل صحیح نہیں۔ صحیح وہی ہے جو اوپر امام نووی کے حوالے سے بیان کیا گیا۔
○سوال: کیا ہر بدعت برُی اور گمراہی ہوتی ہے؟
●جواب: نہیں، ہر بدعت بری اور گمراہی نہیں ہوتی، کیونکہ اگر ہر بدعت بری اور گمراہی ہوتی تو صحابئہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کوئی ایسا کام نہیں کرتے جو رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں نہ ہوا تھا، مگر بدلتے حالات کے تقاضے کے مطابق بہت سارے ایسے کام جو حضور ﷺ کے زمانے میں نہ ہوا تھا صحابئہ کرام رضی اللہ تعالی علیھم اجمعین نے کیا اور اسے اچھا بھی سمجھا، یہاں پر مختصراََ چند مثالیں حاضر خدمت ہیں۔

▪مثال نمبر ۱: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں تراویح کی نماز با قاعدہ رمضان المبارک میں ہر رات کو نہیں ہوتی تھی۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے با قاعدہ تراویح کی جماعت قائم کی۔ اور جب یہ جماعت قائم ہو گئی تو آپ نے ارشاد فرمایاــ’’نعم البدعة ھٰذہ‘‘ یہ کتنی اچھی بدعت ہے۔

(صحیح بخاری کتاب صلاۃالتراویح باب فضل من قام رمضان حدیث۱۹۰۶)

غور کریں! اگر ہر بدعت بری اور گمراہی ہوتی تو حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ’’بدعت‘‘ کے ساتھ ’’اچھی‘‘ کا لفظ کبھی استعمال نہ فرماتے مگر آپ نے ’’بدعت‘‘ کے ساتھ ’’اچھی‘‘ کا لفظ استعمال کیا ۔معلوم ہوا کہ ہر بدعت بری اور گمراہی نہیں ہوتی ۔

مثال نمبر ۲: نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور امیر المومنین سیدنا ابو بکر صدیق و سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنھما کے زمانہء مبارک میں جمعہ کے دن صرف دو اذان ہوتی تھی۔ پہلی اذان اس وقت ہوتی جب امام منبر پر بیٹھ جاتے تھے اور دوسری اذان (یعنی اقامت) نماز کے شروع ہونے سے پہلے ہوتی تھی۔ مگر جب سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دور آیا تو آپ نے بدلتے حالات کے تقاضے کے مطابق ایک ’’اذان‘‘ کا اضافہ کیا اور مقام ’’زورائ‘‘ پر دینے کا حکم دیا۔ اس طرح سے جمعہ کے دن بشمول ’’اقامت‘‘ کے تین اذانیں ہو گئیں

(صحیح بخاری،کتاب الجمعۃ،باب الاذان یوم الجمعۃ، حدیث: ۹۱۲)
• سوچنے کی بات ہے۔ اگر ہر بدعت بری اور گمراہی ہوتی تو سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ وہ کام کیسے کرتے جو حضور ﷺ کے زمانے میں نہ ہوا تھا ۔ مزید یہ کہ اس وقت کثیر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین باحیات تھے کسی نے بھی اعتراض نہ کیا کہ آپ ایک ایسا کام جو حضور ﷺ ،سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہما کے زمانے میں نہ ہوا ۔ ايسے آپ نے کیوں کیا؟ بلکہ تمام صحابہ و تابعین نے اسے قبول کیا اور آج تک تمام مسلمانون کا اسی پر عمل ہے۔ اب آپ خود ہی فیصلہ کریں! کیا وہ تمام صحابہ کرام اور تابعین عظام اور آج تک کے تمام مسلمان، اس پر عمل کرنے کی وجہ سے گمراہ اور جہنمی ہیں؟ یا وہ جہنمی ہیں جو صحابہ اور عام مسلمانوں کا راستہ چھوڑ کر اپنا الگ راستہ بناتا ہے؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اور جو مسلمانوں کے راستے کے علاوہ کسی اور راستے کو جائے تو اُس کو ہم پھیر دیں گے، جدھر وہ پھرا۔ اور اُسے ہم جہنم میں ڈال دیں گے اور وہ کیا ہی بُری جگہ ہے پھرنے کی۔
(سورہ نسائ،آیت:۱۱۵)


Post a Comment

0 Comments